تیری ملن لیئے ملن تھا ہر آدمی سے
اب کہ ہر رات ملتا ہوں چاندنی سے
نہ حسرتیں نہ وہ عشق پہلے جیسا رہا
جیسے چھٹکارا مل گیا کسی خادمی سے
محاصل کچھ خوشیاں تو وہ لیکر چلے
تسکین پھر کہاں ملتی ہے آمدنی سے
تقدیر تو ویسے بلیغ ہے سب کی مگر
لوگ کیا کیا مانگتے ہیں جپنی سے
رفاقت اعمال میں کچھ احتیاط نہ رہا
میں دکھ بھی کیا کروں اپنی کرنی سے
وہ لکھنے والا جو ادھوری چھوڑ گیا
مجھے سروکار بھی نہ رہا اِس کہانی سے