زبان پہ کوئی اور نہیں صرف تیرا ہے نام
تو دل کی دھڑکنوں میں دھڑکتی ہے صبح شام
تیرے تصورات بس تیرا رہے خیال
ہم کیا کریں کہ زہن میں رہتی ہے تو مُدام
التواءِ مُلاقات کے جھمبیلے میں پھنسے ہیں
ہم بھول گئے اب تو تیرے گھر کے درو بام
ہجراں کے ستائے ہوئے ہیں کچھ لذتِ وصل دے
کچھ ہم کو دلاسہ ہی دو کچھ کم کرو آلام