دل وحشی میں اکثر کرچیاں آرام کرتی ہیں
لب گرداب پاگل کشتیاں آرام کرتی ہیں
میری خاموشیوں کا تجزیہ کر کے ہی جانو گے
رکے لمحوں میں کتنی آندھیاں آرام کرتی ہیں
کہیں بھی زندگی کا ساتھ نہ چھوڑا امنگوں نے
میرے چلتے لہو میں تتلیاں آرام کرتی ہیں
بہاریں روٹھ کے گزریں پریشاں ہے چمن سارا
کہاں ہو تم کہاں وہ شوخیاں آرام کرتی ہیں
پرندوں کا جبھی تو کوچ کر جانا ہی بہتر ہے
سنا ہے گھونسلوں میں بجلیاں آرام کرتی ہیں
جہاں والے سمجھتے ہیں جسے تخلیق گوہر کی
دبا کر دل میں آنسو سیپیاں آرام کرتی ہیں
تو پھر پلکوں پہ بھی دستک کہاں محسوس ہوتی ہے
کہ جس موسم میں دل کی کھڑکیاں آرام کرتی ہیں
چھڑی خوشبو تو فطرت کا وہی پھر بانکپن بولا
ذرا تھم کر یہاں کچھ لڑکیاں آرام کرتی ہیں
چھپا رکھا ہے سب سے تم کو پھر بھی لوگ کہتے ہیں
میرے لفظوں میں تیری سسکیاں آرام کرتی ہیں