زلفوں میں تیری یاد کا گجرا سجا بھی ہو
ہاتھوں پہ میرے پیار کا رنگِ حنا بھی ہو
پھیلے ہوئے ہیں چار سو دشمن حسین کے
ممکن ہے پھر سے معرکہ کرب و بلا بھی ہو
ہر دم تمہارے دل کا میں پیغام پڑھ سکوں
آنکھوں کا تیری سامنے اک آئینہ بھی ہو
تنہائیوں کی سیج پہ جل کر گزار لی
اس زندگی کا روح سے اب فاصلہ بھی ہو
میں اجنبی ہوں شہر میں سودائی تو نہیں
کوچے میں تیرے میرا کوئی آشنا بھی ہو
دل میں ہمیشہ میرے یوں ہی روشنی رہے
حبِّ خدا کے بعد حبِّ مصطفے بھی ہو
وشمہ مری حیات ہے گلشن نما یہاں
آنکھوں کو ایک پیار کا سپنا عطا بھی ہو