زلفوں کو میرے شانوں پہ یوں نہ گرائیے
اتنا قریب آ کے ستم تو نہ ڈھائیے
خوشبو بدن کی ایسے نہ مجھ پہ لٹائیے
اب اور میرے ضبط کو نہ آزمائیے
مستی بھری نگاہوں سے دیکھیں نہ بار بار
پھر ہوش میں نہ آؤں نہ آتنا پلا ئیے
سانسیں ہیں گرم گرم سی اس سرد رات میں
ہونٹوں پہ بات دل کی خدارا نہ لائیے
سچی وفا کے وصل کی گھڑیوں کی اور بات
جھوٹی محبتوں میں نہ لمحے گنوائیے
دل تو شریر ہے یہ کرے گا شرارتیں
سمجھائیے ذرا اسے قابو میں لائیے
اب گھر کو جائیے کہ بہت رات ہو چکی
ملنا ہی ہے تو دن کے اجالے میں آئیے