محبت اب شام سی ہے
بکھرے ھوئے نام سی ہے
صدیوں کی اجڑی ھوئی بستی میں
گھرے پڑے کسی جام سی ہے
لکھوں تو لفظوں کی سیاھی میں
لکھت کی طرح عام سی ہے
کریدوں ہر لمحہ تو لگتا ہے مجھے
محبت ہی ہے جو بڑے دام کی ہے
مفہوم بدلتے رہے محبت کی طلب میں
زمانے سے ھو گزری وہ محبت جو کسی شان سی ہے