وہ تیغ و تیشہ و تیر و کمان چھوڑ گیا
تڑپتے جسم میں بل کھاتی جان چھوڑ گیا
خدایا ہم پہ یہ کیسا زوال آیا ہے
زمین روٹھ گئی آسمان چھوڑ گیا
وہ ایک اشک جو آنکھوں سے میری بہہ نکلا
وہ اپنے پیچھے کئی کاروان چھوڑ گیا
مگر وہ شخص جسے خون سے کیا سیراب
کڑکتی دھوپ میں بے سائبان چھوڑ گیا
بہت دنوں سے تصوّر میں وہ نہیں آیا
مرا گمان بھی اپنی اڑان چھوڑ گیا
یہ دکھ، یہ درد, یہ غم لے کے جانا بھول گیا
وہ اتنی جلد یہ دل کا مکان چھوڑ گیا
نجانے کون سی منزل کا وہ پکھیرو تھا
ہوا کے ہاتھ پہ اپنا نشان چھوڑ گیا