کیا ہوا جو یہ شام بھی اداس ہے
ہاں جانتا ہوں اداسی کی وجہ بھی بہت خاص ہے
کس قدر شعلہ سرخی سے سجی ستم گر شام ہے
وہ ہے تو خوش مگر بے قرار ہے
شاید اب بھی کسی کا اسے انتظار ہے
دیکھا تھا جو خواب کبھی آج بھی یاد ہے
ہونٹوں پر مسکان مگر آنکھ اشکبار ہے
جو لمحہ بیت گیا بس وہی یادہے
جو اب نہ لوٹ آئے گی بہار اس کاانتظار ہے
نئی پوشاک پر جانے کیوں پرانی سی شال ہے
شال کانہیں سب حسنِ یار کاکمال ہے
سننے کودل کس بے تاب ہے
خان کیوں کرتے ہو تعریف وہ توزمین کا آفتاب ہے