زندگی ایک امتحان سہی
آگ برساتا آسمان سہی
ہارنے سے مجھے بھی نفرت ہے
میں تری جیت کا نشان سہی
سر چھپانے کو چاہیۓ کچھ تو
گر نہیں گھر تو اک مکان سہی
وار د شمن کا چل ہی جاتا ہے
دوست کتنا بھی مہربان سہی
جھوٹی باتوں میں کون آۓ گا
لاکھ دلکش ترا بیان سہی
پہنچنا ہے ضرور منزل تک
پاؤں میرے لہو لہان سہی
تو نہ ہو پاۓ گا جدا مجھ سے
کوئی دونوں کے درمیان سہی
تجھ پہ کیسے میں اعتبار کروں ؟
تو مری جان ، میری جان سہی
راستہ پر خطر تو ہے عذرا
عزم گرچہ ترا جوان سہی