زندگی
Poet: Sumaira Sajid By: Sumaira Sajid, islamabadمیری گفتگو میں کمال نہیں ہوتا نہ سہی
میرے لہجے میں جمال نہیں ہوتا نہ سہی
بس اک بات کی میں تمہیں اجازت نہیں دیتی
کہ میرے خلوص کی سچائی کا انکار مت کرنا
میرے کردار کی شرافت کو داغدار مت کرنا
میں نے تم کو، اور تم نے مجھ کو اکژ
دیکھا یے کئی بار اجنبی سر زمین کی طرح
کبھی تم مجھ کو چھوڑ آئی ہاتھ جھٹک کر
کبھی میں نے تم کو چھوڑا راستہ بھٹک کر
دونوں میں کبھی کوئی رشتہ بنتا ہی نہیں
کہتی ہو تم کیا ۔۔۔ میرا یہ دل سنتا ہی نہیں
رشتہ تو درد، ساز سر سنگیت کا تھا
میرے دل کی دھڑکن سے کوش چہرہ زیست کا تھا
یہ تیرے خوش چہرے کو بے چہرہ کیا کس نے؟
نوچا تجھے، پر کاٹے، بے مہر کیا کس نے
کن ہاتھوں میں کھلونا بنی تو کھیلتی رہی
رقص ابلیسی کا حصہ بنی اور جلتی رہی
روند کر گزرتے رہے ظلم کے قافلے تم کو
زخم زخم کر دیا پہلے تجھ کو پھر ہم کو
کم حوصلہ انسان سے تیری حفاظت نہ ہو سکی
تیری شگفتگی پھر کبھی تیری شناخت نہ ہو سکی
سوچتی ہوں کسی روز تیری بے چہرہ زندگی کو
اپنے دل کی زمین کا تحفہ پیش کروں
جذبات کی مہک اور خوشبو کا آہنگ پیش کروں
کہ جاؤ اپنے خوں سے لتھڑے چہرے کو
میری سوچ کے شفاف آٰئینے میں صاف کر لو
میرے دل کی زرخیز زمین پر اپنا گھر کر لو
کہ جاؤ سب عداوتوں کی تھکن کو اتار لو
اپنے دریدہ دامن کو میری خوشبو سے بھر لو
اپنے چہرے کے نقوش میرے جذبات سے سنوارو
ظلم وستم سے کڑھی اپنی قبا کو بدلو
میری آنکھوں میں بس کر اس نظر سے جہاں کو دیکھو
تم اپنے نئے جنم کے احساس پر مسکرا دو گی
میرے ساتھ کی خوشبو سے پھر تم شرما دو گی
پھر تم کو پتہ چلے گا یہ زندگی کیا ہے
اک حسیں تحفہ خداوندی کے سوا کیا ہے؟
تم کو آج تک کسی نے شرف ملاقات نہیں بخشا
تم نے بھی کسی انسان کے جزبات کو نہیں سمجھا
چلو اک بار میرے دل سے دوستی کر لو
اس محبت کی بارش سے کم اپنی تلخی کر لو
میرے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو تھام کر تو دیکھو
میرے جذبوں کو اپنی مانگ میں بھر کر تو دیکھو
میں تیرے ہر زخم کو ستارا بنا دوں گی
تیرے ہر کرب کو جیون کا استعارا بنا دوں گی
بس اک بار ذرا محبت سے خود کو جگمگا لو
زندگی ظلم کے سوا بھی کچھ ہے دل میں بٹھا لو
تم مسکرا کر جی اٹھو گی نئے ڈھنگ سے
آباد ہونے لگو گی نئے رنگ سے
اپنے وجود سے بدی کا خاتمہ کر دو
انسان سے محبت کا اک نیا تماشا کر دو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






