زندگی اپنے اُلجھ گئے مسائل سمونے نہیں آتی
شاید وہ اپنا واجب حال پھر سے کھونے نہیں آتی
یہ ہے ’’بلاغت‘‘ جس سے ممتاز ہیں ہم آج تک
پھر بھی عظمت کی مول ہمیں تولنے نہیں آتی
بے پرواہ دخل ڈالتی ہے سوچوں میں ہر بار
غم کی یہی آندھی ہم سے پوُچھنے نہیں آتی
وہ دیوانگی جسے محکومیت پسند ہی نہیں
محبت تو حکم تلے کبھی بھی دبنے نہیں آتی
باندہتے رہو ہمیشہ، کہ رشتے جُڑتے رہیں
جب تک یہی ڈوریاں تمہیں چبھونے نہیں آتی
طوفانوں کی ہم قوُت ہی ہوتا ہے سب کچھ
عبث ہر لہر سنتوشؔ کبھی ڈبونے نہیں آتی