گماں تھا کہ اس کی محبت تمام ہوئی
اک آواز نے آ کر کہا حضرت تمام ہوئی
جبر ناروا سے رواجوں نے کیا جدا جدا
آنکھیں اتنا روئیں کہ بصارت تمام ہوئی
کیا ہوا آج کل تمہارے غم کم ہونے لگے
مہرباں کیا تیری ہم پر عنایت تمام ہوئی
دو گھڑی کو ملی تھی کوچہِ آرزو میں
آغازِ گفتگو سے پہلے ملاقات تمام ہوئی
خیر سے وداع بھی نہ کیا تجھے ہاۓ
تَذَبذُب کی فضّا میں حالت تمام ہوئی
میں آن پڑا ہوں حلقہِ وحشت کی طرف
بزمِ احباب سے مَژدہ عِشرت تمام ہوئی
یوں کب تلک اداسی کو ہوا دیتا رہوں
دل ہی بجھ گیا اب حسرت تمام ہوئی
اے خدایا ! تجھے یہ تیری دنیا مبارک
ہماری دنیا سے اب حجت تمام ہوئی
تھکا دیا ہمیں دو دن کی مسافت نے
زندگی بس کہ تیری اب مدت تمام ہوئی