زندگی تجھ کو کیا ہوا ہے
موسم گل روٹھ گیا ہے
اجنبیت سی مجھ پہ طاری تھی
سرد لہجوں کو کیا ہوا ہے
سرراہ سہی، ملتا تو ہے
کیوں تیرا دل بجھ سا گیا ہے
زندگی کا سفر تو جاری ہے
میرا ہمدم بھی کہیں ٹہر گیا ہے
وصل کا الاؤ جلتا رہے یونہی
ہجر کا موسم تھم گیا ہے