تِیر پھینکا ہوا کمان سے آج
زندگی تو ابھی گمان سے آج
زور چلتا نہیں وفاؤں کا
کیا محبت کے کاروان سے آج
ساتھ رہتا ہے روح کا پنچھی
کچھ تو ایسا مری اڑان سے آج
کیسے باتوں سے دلکشی جھانکے
جب یہ دردِ دہن زبان سے آج
تیری خواہش میں ٹوٹتا ہے بدن
جانے کیا کیا ترے جہان سے آج
سرخ ہونٹوں کو چومتی کرنیں
سب نگاہوں کی داستان سے آج
عزم و ہمت کی داستاں وشمہ
میری کشتی کے بادبان سے آج