زندگی موت کی امانت ہے کوئی بخشش کا روپ نہیں
ہم خود سے رنج ہیں کسی کی کشش سے دھوپ نہیں
سہل کر چلو کہ سنجیدگی ہی آپ میں ٹھہر جائے
جس کے عمل مہانتا ہیں ان کو ضرور محبوب نہیں
ہم ہر خوشامدی کی اہل تکمیل مانتے ہی آئے ہیں
دلکشی نے بھی شکایت کی کہ یہ تمہارے اسلوب نہیں
حق دیرینہ کسی کی مانگ میں بھی تروید کرتے ہیں؟
تدبیر کی تصدیق ہوئی ہے کہیں یہ ستارہ غروب نہیں
میری فرہنگ طبیعت آپ کو محروم تو نہیں کرتی
پھر بھی یوں حقارت مزاج رہو یہ تو ضرور نہیں
میرا انتخاب، دلسوزی اور یہ خیالوں کی بلندیاں دیکھ
سب اپنے فہم کی تجویز ہے اس میں کوئی غرور نہیں