زندگی میں اب تک ہم انہیں بھلا نہ سکے
تنھائی میں خود پہ یہ ستم ڈھا نہ سکے
کر کہ کئی وعدے الفتوں کے وہ مکر گے
ہم تو انہیں بھولنے کا وعدہ نبھا نہ سکے
حسیں یادیں وصال کی اب تک اپنے ساتھ ہیں
حجر میں بھی ہم انہیں کر جدا نہ سکے
دیکھ کر راستے میں وہ آج بھی مسکراتے ہیں
مجبور ہیں اس سے بڑھ کے ظلم ڈھا نہ سکے
خدایا روگ عشق سے بچانا سب کو
انسانیت کیلے اس سے بہتر ہم کر دعا نہ سکے