زندگی کتنی روح پرور تھی
جب تیری یاد میری ہمسفر تھی
تیرے وعدوں کا ڈوبنا کیسا
میری خواہش ہی اک سمندر تھی
رات کی بے ثبات کٹیا میں
کانچ کے خواب نیند پتھر تھی
ایک دریا تھا آنکھ سے باہر
ایک خاموش جھیل اندر تھی
پیاس کتنی تھی اب ہوا معلوم
عمر اک گھونٹ کے برابر تھی