زندگی کے میلے میں خواہش خوشی کیا ہے
کس طرح بتائیں ہم کہ یہ بے بسی کیا ہے
چاند تک سفر اس کا راستے ہوا ہیں پر
آدمی نہیں سمجھا کہ یہ آدمی کیا ہے
رب کی بارگاہ میں بھی ہیں خیال دنیا کہ
کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ بندگی کیا ہے
اک ذرا سی رنجش سے پل میں چھوڑ دیتے ہو
تم ذرا بتاؤ گے کہ یہ دوستی کیا ہے
دشمنوں سے ملتا ہوں میں ندیم ہنس کے تو
دشمنی بھی کہتی ہے کہ یہ دشمنی کیا ہے