زندگی کے نصاب سے نکلے
اس کا چہرہ نقاب سے نکلے
رنج و غم جو سراب سے نکلے
تیری خوشبو چناب سے نکلے
حسن میرا شباب سے نکلے
زندگی کی شراب سے نکلے
ایسے مہکی تمہاری سانسیں ہیں
َ۔۔ جیسے خوشبو گلاب سے نکلے ۔۔
تم بھی ٹھہرو کہ اب یہ دل میرا
دھڑکنوں کے عذاب سے نکلے
اس کی یادوں میں جب بھی کھولی ہے
پھول سوکھے کتاب سے نکلے
ایسے اترے ہیں آنکھ میں آنسو
جیسے دریا شہاب سے نکلے
پیارے موتی ہیں جتنے باتوں کے
وشمہ تیرے خطاب سے نکلے