چراغ دشت کے زندہ جلا گئے مجھ کو
یہ درد شام کے لمحوں میں کھا گئے مجھ کو
ہمیں تو پھول کی خوشبُو پہ نیند آتی تھی
نہ جانے خاک پہ کیسے سُلا گئے مجھ کو
یہاں تو وقت کی آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
یہ میزباں کہاں پر بٹھا گئے مجھ کو
تیرے حجاب کو چُھو کر ہوائیں آتی تھیں
یہی خیال تو پتھر بنا گئے مجھ کو
ہمارے ضبط کی دنیا مثال دیتی تھی
نکال کے آنکھ سے آنسُو رُلا گئے مجھ کو