زورِ بازو سے محبّت نہیں حاصل ہوتی
اس زمانے سے امانت نہیں حاصل ہوتی
بات بنتی ہے مقدر میں لکھی ہو ورنہ
رتجگوں کو بھی عبادت نہیں حاصل ہوتی
نالہءِ غم یہ جہاں بھر کو سناتے کیوں ہو
غیر کے در سے حمایت نہیں حاصل ہوتی
لڑ کھڑائیں نہ قدم اہلِ جہاں سے جاناں
کب محبّت میں عداوت نہیں حاصل ہوتی
دل کی آواز کو سنتے ہیں فقط دل والے
ہر کسی کو یہ سماعت نہیں حاصل ہوتی
خوش نصیبی ہو تو ملتی ہے خبر آنے کی
بد نصیبی پہ بشارت نہیں حاصل ہوتی
ہم بھی دکھلائیں اُنہیں اپنی محبّت عاکف
جانے کیوں ایسی جسارت نہیں حاصل ہوتی