ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی
مجھ کو تھا شوق دیدِ نو جمال کا اگر
رستہ بدلنا روز ہی عادت اُسے بھی تھی
مجھ سے کٹا تو شہر میں کیونکربساہوگا
دُشمن تھا اگر شہر عداوت اُسے بھی تھی
کب تک وہ درد بانٹتا انسان تھا آخر
زخموںسےمیرےتھوڑی کراہت اُسےبھی تھی
راہِ وفا سے اُس نے قدم موڑ تو لئیے
لیکن وہ مضطرب تھا ملامت اُسے بھی تھی
ترکِ وفا کا فیصلہ اُس کا ہی تھا گوہر ؟
یا تھی یہ خود فریبی چاہت اُسے بھی تھی