زیرِ لب مسکرائے وہ دل دکھانے کے بعد
اب محو ِتماشہ ہیں مجھے رُلانےکے بعد
اداسیاں بھی مجھے تنہا نہیں دیکھ سکتیں
میرے قریب رہتی ہیں تیرے جانے کے بعد
آنسوؤں سے بجھانےآئے ہیں شعلہ و شرر
میرے نشیمن پہ بجلیاں گرانے کے بعد
ساقی نے جام دے کر از راہ ِ مزاح پوچھا
اب کہاں جاؤ گے اس مے خانے کے بعد
یہ کس روش پہ چل نکلا ہے مہرباں میرا
خود ہی روٹھ گیا مجھے منانے کے بعد
دل کو یہ خلش مضطرب کئے رکھتی ہے
گنوا دیا میں نے اُسے مگر پانے کے بعد
ریت کے زرّوں میں دھونڈتا پھرتا ہوں
تیرے قدموں کے نشاں مٹانے کے بعد
عالم ِوصل میں فرقتوں کا حساب مانگا تو
سنجیدہ سے ہو گئے وہ بڑبڑانے کے بعد
پنچھی نے وقتِ رہائی پروں کو لہرایا تو
بے بسی سے گر پڑا پھڑپھڑانے کے بعد
سنا ہے وہ بھی پریشاں سا رہتا ہے آجکل
مجھ سے یوں دوریاں بڑھانے کے بعد
وہ میرا ہو سکا ، نہ میں اپنا ہی رہا
یوں پائی سزا میں نے دل لگانے کے بعد
بات تو جب تھی وہ میری بھی سن لیتا
پھر نا جاسکتا فقط اپنی سُنانے کے بعد
متائے جاں بھی رضا نظر ِجاناں کر دوں
اُسکو سکوں ملتا ہے اگر ستانے کے بعد