نہ زلفِ عنبر یں ہے نہ خواب ہیں سہا نے
دل ہے بجھا بجھا سا ، کیوں، کیسے، کون جانے
کچھ برف سی جمی ہے خواہش کے پربتوں پہ
کچھ اوس سی پڑی ہے پچھلی محبتوں پہ
خو ا بو ں کی ٹو ٹی پھو ٹی و یران ر ہگز ر پر
ا ک شمع جل رہی ہے ناکا م حسرتوں کی
ہے بند مدتو ں سے درو ا زہ د ل کا لیکن
زنجیر ہل رہی ہے گمنا م ساعتو ں کی
ا ک اِلتجا ہے یارو ، حالات کو سنو ا رو
جو بھی خفا ہیں اُ ن کو ، آو ا ز د و ، پکا رو
و ر نہ یو ں ز ند گی بھر ، ا فسوس کرتے کرتے
رُک رُک کے چلتے چلتے ، یہ شام ڈھل نہ جائے
بستی اُ جڑ نہ جائے ، ساتھی بچھڑ نہ جائے