ساری باتیں ہیں پیار کی باتیں
کیا کہیں تم سے یار کی باتیں
مست آ نکھوں سےمجھکو کر نے دو
ہلکی ہلکی خماُر کی باتیں
ذکر نکلا تمہارے لہجے کا
چل پڑ یں آ بشار کی باتیں
کوئی بھی رُت ہو اے مرِے ہمدم
ہم کریں گے بہار کی باتیں
کون سمجھے گا دوست تیرے بعد
اِس دلِ بیقرار کی باتیں
ہم غزل در غزل سنائیں گے
سایہء زُلفِ یار کی باتیں
کیا عجب دور ہے کہ یار مرِا
کرتا ہے کار و بار کی باتیں
مصرعِ طرح : اُسکی با تیں بہار کی با تیں