ساری دُنیا بھلائے بیٹھے ہیں
لَو تمہی سے لگائے بیٹھے ہیں
غم کا شعلہ تو دو جلانے کو
آتشِ دِل بُجھائے بیٹھے ہیں
بھول کر لو کبھی تو آنے کی
آس کب سے لگائے بیٹھے ہیں
آپ کی خامشی سے لگتا ہے
کچھ تو ہے جو چھپائے بیٹھے ہیں
بحث مت کیجیو جنابِ شیخ
ہم خدا تک بھلائے بیٹھے ہیں
ہو کہ دیوانے تیری چوکھٹ پر
بڑی مدت سے آئے بیٹھے ہیں
مرد ہیں بددلی کے میداں کے
دولتِ دِل لٹائے بیٹھے ہیں
جیسے ہم جاں سے جانے والے ہیں
ایسا کچھ مُنہ بنائے بیٹھے ہیں
اب تو ہر کوئی بھا رہا ہے ہمیں
کچھ عجب دِن سے آئے بیٹھے ہیں