سارے عالم سے میں بے خبر ہو گیا
جب سے اس کا مرے دل میں گھر ہو گیا
میری ان سے ہمیشہ عداوت رہی
جن کا تیری گلی سے گزر ہو گیا
جانتا تھا کہ وہ سچ نہیں کہہ رہا
اس کی باتوں کا پھر بھی اثر ہو گیا
جسم کی بھوک جب حد سے باہر ہوئی
اِنس رشتوں سے بھی بے خبر ہو گیا
کاٹ کر اس کا ایندھن بنایا گیا
پیڑ گلشن میں جو بے ثمر ہو گیا
تنگ مظلوم پر یہ زمیں ہو گئی
اور ظالم یہاں پہ نِڈر ہو گیا
رہنما اور رہزن کی تفریق میں
طے مری زندگی کا سفر ہو گیا
ایک شبنم کا موتی تھا دیپک مگر
وقت کی آگ میں یہ شرر ہو گیا