سارے فتنے تھے قاتل نظر کے

Poet: Tanzeem Akhtar By: Tanzeem Akhtar, doha

سارے فتنے تھے قاتل نظر کے
ٹکڑے ٹکڑے ہوۓ ہیں جگر کے

اور کس کو یہاں اپنا کہتے
جتنے دشمن ملے اپنے گھر کے

نام تیرا ہی سب پر لکھا تھا
جتنے ٹکڑے ہوئے تھے جگر کے

یاد آتا ہے اس کا وہ چہرہ
وقت رخصت جو دیکھا ٹھہر کے

ایک اک کر بچھڑنے لگے ہیں
ہم سے ساتھی سہانے سفر کے

یاد پھر آگئی آج ماں کی
رو دئیے آج پھر آنکھیں بھر کے

عمر پیری میں یاد آتے اکثر
ہم کو قصے پرانے دہر کے

جی نہیں لگتا دنیا میں تنظیم
تو چلیں دیکھیں جاں سے گزر کے

Rate it:
Views: 276
18 Oct, 2020