سب پہ وہ مہربان رہتا ہے
ہم سے ہی بد گمان رہتا ہے
دل کا وہ حال ہے تمہارے بعد
جیسے خالی مکان رہتا ہے
وقت نا مہرباں ہے ، اور مجھکو
کیسا کیسا گمان رہتا ہے
مل تو لیتے ہیں ہم گلے لیکن
فاصلہ درمیان رہتا ہے
کیوں چھپاتےہو اشک آ نکھوں میں
کس کو ا تنا دھیان رہتا ہے
شکر کیجئے کہ خانہء دل میں
کوئی تو سخت جان رہتا ہے
وقت کو یوں نہ رائگاں کیجئے
آ خری اِمتحان رہتا ہے
زخم بھر جاتا ہے مگر انور
ایک گہرا نشان رہتا ہے