سب کچھ سامنے اور خاموش زبانیں
بے سخن ہیں یہ فراموش زبانیں
خودنمائی تو خوب نمایاں ہوئی ابکہ
اپنے رتبے پہ ہیں افسوس زبانیں
میرے آس پاس دیکھو کیا کیا خزانہ
بے ہمت لوگ اور بیہوش زبانیں
بہت بھٹکی ہیں اپنے اختیار پہ آج تک
اب بھی لگتی ہیں خانہ بدوش زبانیں
یوں تو سنجیدگی کا ہے ردم ہی اپنا
پھر کیوں ہیں اتنی یہ ٹھوس زبانیں
کبھی کردار پر تو کبھی قسمت کے آگے
ہردم ہر دفعہ رہی یہ دوش زبانیں