سب کچھ یوں ناگہانی ہو جاتا ہے
ہر لمحہ ایک کہانی ہو جاتا ہے
کہیں تو ہم آہ بھی روک لیتے ہیں
کہیں یہ روُح پانی پانی ہو جاتا ہے
دوسروں کو اپنا دل سپُرد کردے تو
بندہ خود بھی لامکانی ہو جاتا ہے
پہلے تو کسی ٹھہراؤ پہ گشت کرتے ہیں
پھر وہی کردار ہماری نشانی ہو جاتا ہے
پتہ بھی کہ وہ دلدل بڑا مضُر ہے مگر
عشق ہر اعمال پر بانی ہو جاتا ہے
تسکین آرزُو پھر بھی باقی رہتی ہے سنتوش
اس سے پہلے انسان فانی ہو جاتا ہے