میں دن بھرغزلیں بیشمار بناتا ہوں
سخن کہ سہارے زیست پربہار بناتا ہوں
سب کےمعیار پہ پورا نہیں اترسکتا
مگران میں اچھی بھی دو چار بناتاہوں
جو سامعین کےدل کےتاروں کو چھیڑیں
میں کچھ اس طرح کےاشعار بناتا ہوں
ہر کسی کو لگےکہ یہ اس کی کہانی ہے
اپنےتخیل سےمیں ایسےکردار بناتاہوں
مقدر پہ تو ہمارا کوئی بس نہیں چلتا
مگر اب سوچ سمجھ کرنئے یاربناتاہوں