سبھی سیکھتے ہیں یہاں پھر چلنا آتا ہے
کسے سہاروں سے پہلے یوں اٹھنا آتا ہے
پھسل جاتے ہیں پاؤں ترغیب کیئے بغیر
راہوں کو آج بھی خوب ورغلانا آتا ہے
تم فن مصور سمجھو یا محروم ان کو
عاشقوں کو تو ہر درد جھیلنا آتا ہے
شبنم اور دھوپ کا وصال ہوا جب سے
کلیوں نے کہدیا کہ ہمیں کھلنا آتا ہے
نینوں کی مدہ ابکہ پینے کی ضد تھی
آنکھوں کو تو ہر طرح سے بہکانا آتا ہے
محبت کی ڈوری کھچنے سے پہلے سنتوشؔ
کسی نے پوچھ لیا تمہیں نبھانا آتا ہے