گھٹن میں جی لیاہے بے بسی معلوم ہوتی ہے
ستارے آنسوؤں کی روشنی معلوم ہوتی ہے
ڈسے ہم ہیں، ڈسے تم ہو، مگر دشمن نہیں ملتا
کہیں باہر نہیں یہ دشمنی معلوم ہوتی ہے
کوئی پارس نہیں چھوتا، مگر سونا نکلتا ہے
چلو مل جل کے ہم ہی دوستی معلوم ہوتی ہے
جہاں آدم بنے انساں کہیں ڈھونڈو وہی بھٹی
بنیں ایندھن، وہی یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
مجھے پھر سوچنا ہو گا، کہیں ظاہر نہ ہو جائیں
جو اندر کی ہیں سب باتیں خوشی معلوم ہوتی ہے
کسی بھی ایک پلڑے میں جھکاؤ، کس قدر مشکل
سمجھتے سوچتے یہ عاشقی معلوم ہوتی ہے
گزارہ جب بھی قوموں نے کیا وشمہ برائی میں
پڑا رونا، وہی پر بے کسی معلوم ہوتی ہے