ہم نے جو زہر پی لیا ہے
اپنے لئے وہی تریاق ہوا ہے
گردش دوراں سے مسعار اک وقفہ
کسی یاد میں خوب گزرا ہے
جب خود کو سنبھالا نہ گیا
سمجھئے قریب سے وہ کہیں نکلا ہے
پٹ کھڑکی کے کیوں بند رہیں
کھولئے انہیں باہر تازہ ہوا ہے
سزاتو کسی طور ملے گی
چاہے جرم کسی اور کا ہے
رگ جاں سے آہ ‘ ترانے منہ پر
سنتے ہیں وہ ہنستا کھیلتا ہے
جو ستم رہ گیا ہے وہ کیجئے
ناصر تو بے نام پتھر کا بنا ہے