ستم بھی ترا ہم کرم دیکھتے ہیں
نہ ٹوٹے یہ اپنا بھرم دیکھتے ہیں
جنوں سے بھی آگے کی منزل ہے اپنی
کہاں تک ملیں گے الم دیکھتے ہیں
حقیقت محبت کی پا کر رہیں گے
بہت عزم راسخ ہے ہم دیکھتے ہیں
نہ دولت کے بھوکے نہ شہرت کے طالب
ہم اہلِ قلم بس قلم دیکھتے ہیں
ادب کی زبانیں ہزاروں ہیں لیکن
ہو اردو کا اونچا عَلم دیکھتے ہیں
سرِ عام رودادِ الفت سنا کر
"تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں"
نظر میں کئی دوست آئے پرانے
زمانے کی چالیں جو ہم دیکھتے ہیں
نگہ جن کی ہوتی ہے منزل پہ قاسم
ستاروں کو وہ ہم قدم دیکھتے ہیں