سجا کے ہاتھہ وہ اپنے حنا سے
لگی کہنے سلامت رکھہ خدا سے
نہیں دل میں کوئی امید پنہاں
کہاں ملتی ہیں خوشیاں اب رضا سے
شکستِ زیست کو کافی یہی ہے
مراسم ہیں بڑے اس کے قضا سے
میرے ایمان کی حالت تو دیکھو
ڈراتا ہے مجھے کافر سزا سے
نہیں ممکن غم ِ جاں کا تسلط
میں کب کا مر چکا اہل ِ جفا سے
بہل جاتا ہے دل روزی کے غم میں
کبھی جنت سے اس کی یا جزا سے
غلاف ِ شعر میں کردو عیاں سب
کرو احسن سخن ایسی ادا سے