وہ روٹھے ایسے کہ ھم ان کو پھر منا نہ سکے
لکھے تھے نام جو درختوں پہ وہ مٹا نہ سکے
سہانی رات میں دیکھا تھا اس کے جلوے کو
نظر میں ایسا سمایا کہ پھر بھلا نہ سکے
اس کے دیدار کی ترسی نگاہ کو ساتھ لئیے
اسکی گلی میں یوں بھٹکے کہ گھر کو جا نہ سکے
وہ چاند چہرے پہ جھکتا تھا اسکی عبادت کو
ستارے سجدے میں یوں آئے کہ سر اٹھا نہ سکے