سر سے سرک رہا ہے دوپٹہ سنبھالئے
جاناں ہمیں نہ اور مصیبت میں ڈالئے
روشن جبیں ہیں آپ کی مانند آفتاب
زلفوں کو مت بکھیریے دن کو نہ ڈھالئے
کچھ بھی طلب نہیں ہمیں بزم جہاں سے
اک جام اور دیجئے پھر جاں نکالئے
ملنا نہیں تو پہلے سا اک عہد ہی سہی
کچھ تو خیال کیجئے یوں تو نہ ٹالئے
رنگ قضا کو دیکھ کے تقدیر رو پڑی
قبر فدا پہ موت نے آنسو بہا لئے