سرد بادِ دسمبر کی کالی راتوں میں
آگ لگی ہے اندر تک جذباتوں میں
تُم آؤ گے نہیں لوٹ کر جب تک
کیسے آئینگے بدلاؤ پھر حالاتوں میں
لہجہء تلخ ترا بتا رہا ہے مجھے
کوئی غیر بول رہا ہے تری باتوں میں
انسانیت مر ہی ہے تڑپ تڑپ کے
انسان قید ہے مذہب و نسل ، ذاتوں میں
دیکھ کر میری بربادی کا منظر آج
ناچ رہا ہے غیر کنگھن ترے ہاتھوں میں
بیٹھ کر آگوش میں میری گُم خیالِ غیر
جناب ! کیوں ملاوٹ کرتے ہو ملاقاتوں میں
نہالؔ جی لکھ رہے ہیں اشعار قلم سے
ڈبو ، ڈبو کے سیاہ بخت کی دواتوں میں