سردیوں کی حسین و رنگین شام میں
اتنا کیوں دل میرا اداس ہے
پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی
کیوں اداسیوں کا راج ہے
سجائی ہے ہونٹوں پہ مسکراہٹ میں نے
پھر آنکھوں میں کیوں آنسوؤں کی برسات ہے
کبھی زندگی سے بیزاری پہلے نہ تھی
اب کیوں اتنا شدت سے احساس ہے
لاکھ چاہا ماضی سے دامن چھڑانا
لیکن چہرہ کیوں پھر وہ مجھے یاد ہے
چھوڑ آیا ہوں دیس تیرا اب تو
جذبہ کیوں پرانا اب بھی جوان ہے
زندگی آخری سانسوں پہ ہے میری ساحل
انتظار کیوں تیرے لوٹ آنے کا ہے