تجھے میں چھوڑ دوں یہ سوچنا حماقت ہے
"مِری سرشت میں دھوکہ نہیں محبت ہے "
میں جانتا تھا وہ اک روز چھوڑ جائے گی
یوں اس کا چھوڑ کے جانا پرانی عادت ہے
ذرا سی دیر کو آیا ہوں سوچتے کیا ہو
مرے نصیب میں ہر روز ایک ہجرت ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو سمیٹ لایا ہوں
ملی خوشی نہ کہیں بس یہ ہی شکایت ہے
بچھڑ گیا جو وہ تو بات یہ سمجھ آئی
کسی کا چھوڑ کے جانا بھی اک قیامت ہے
ہمارے پیار کا جادو نہیں چلا اس پر
بھرا زباں میں ہے زہر اور ڈسنا فطرت ہے
ہمیں بلانا نہ محفل میں یہ اجازت ہے
ہمارے نام سے سب کو یہاں شکایت ہے
تمام شکوے گلے آج دور کر دیں گے
چلے بھی آؤ کہ اب دیر تک فراغت ہے