سرمئی رات سے کوئی تو ہے سلسلہ تیرا
کہ چاندنی مجھ سے کر رہی ہے تذکرہ تیرا
تیری سخن و نظر، خال و خد، اپنی مثال آپ
پگھلتی چاندی سا بدن ،مثلِ اپسرا تیرا
اپنی حسرتوں کے خوں سے دی چراغِ وفا کوزندگی
مجھے بھی حیراں کر گےا ہے حوصلہ تیرا
رشتوں کی صلیب ٹھہری گر محبت کا نصیب
بہ سر و چشم قبول مجھے ہر فیصلہ تیرا
بہارِ وصل میں بھی گلشن سے خار ہی چنے
ہے سارے جہاں سے الگ حنا فلسفہ تیرا