جب زخم تیری یادوں کے، بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے ہم تمہیں یاد کرنے، لگتے ہیں
ہر اجنبی چہرہ اپنا دکھائی دینے لگتا ہے
جب بھی ہم تیری گلی سے، گزرنے لگتے ہیں
جس رات چاند سے باتیں کیں تیری، ہم نے
اس صبح آنکھ سے آنسو ابھرنے لگتے ہیں
جس نے بھر دیا دامن کو بے رنگ پھولوں سے
پھر ان کے درد پر ہم کیوں، تڑپنے لگتے ہیں
دل کے دروازے پر کوئی دستک نہیں ہوتی
تیرا ذکرہوتے ہی درو دیوار، مہکنے لگتے ہیں
مٹا دے ہر خیال دنیا کی کتاب سے نندنی
دیوار پر ان کا نام دیکھ کر، سسکنے لگتے ہیں