سفرِ زیست میں راہنما ہے دعا ماں کی
شبِ لاچارگی میں حوصلہ ہے دعا ماں کی
میرے دشمنوں نے پوچھا میرے محافظ کا نام
میں نے مسکرا کے کہا ہے دعا ماں کی
اجنبی سے شہر میں ، انجان سی گلی میں
میری منزلوں کا نشاں ہے دعا ماں کی
زخمِ قلب پہ مرہم ، اُداسیوں میں دلاسے
ہر رنج و الم کی دوا ہے دعا ماں کی
یہ رنگ بھرنگے پھول بھی میرے گلشن کے
اِس سر سبزیوں کی وجہ ہے دعا ماں کی
آؤ دِکھاؤں عرفانؔ میں اپنی زندگی کی سرفرازیاں
میں جو ہوں اور جو ملا ہے دعا ماں کی
آفتوں کا منہ توڑ جواب ہے نہالؔ جی
اور کہوں میں قوتِ خدا ہے دعا ماں کی