سفینہ ہے گرداب کے درمیاں میں
رہیں پر کنارہ کے ہی سرگراں میں
یہ طوفاں بھی کیسے بگاڑے ارادے
بضد جب ہنگامہ خطر کشتگاں میں
مگن ہو مشن میں ہمہ وقت گر ہم
اضافہ مسلسل رہے کارواں میں
تڑپ ہو مکمل اگر ایک بن کر
سکوں ہی ملے درد دل بیکراں میں
حکومت تھی عالم پہ اسلام کی بھی
ستم سے پریشان اب ناگہاں میں
ٹھکانہ ہمارا ہے ناصر جنت ہی
مگر صرف رہنا نہیں اس گماں میں