سلسلے وفاؤں کے ٹوٹ جاتے ہیں اکثر
ساحل پر مسافر ڈوب جاتے ہیں اکثر
عمر بھر ساتھ نبھائیں گے یہ کہ کر
زندگی بھر کے لئے بچھڑ جاتے ہیں اکثر
نازک طنابوں کے یہ خوبصورت بندھن
ہوا کی سرگوشیوں سے ٹوٹ جاتے ہیں اکثر
جو تنہائی میں بھی ہمیں یاد نہیں کرتے
محفل میں وہ ہمیں یاد آتے ہیں اکثر
ان جذبات کی نزاکت کوئی کی سمجھے
بےرخی سےبھی یہ مرجاتے ہیں اکثر
کتنے ہی ماہ جبیں چہرے سحر
زمیں اوڑھ کر سو جاتے ہیں اکثر