خیال و خواب سے مہکی ہوئی یہ شام تیرے نام
نظر کے نور سے لبریز کتنے جام تیرے نام
یہ یادوں کی ہوا بھڑکا گئی بجھتے ہوئے شعلے
سلگتی شام کی یہ آتشِ بے نام تیرے نام
فسانہ میں ہوں تیرا یاد ہے اتنا مجھے لیکن
میرا آغاز بھی تو ہے میرا انجام تیرے نام
میں منزل پہ نہ پہنچوں گر مجھے اس کا نہیں ہے غم
جنوںِ شوق میں ہر ڈگمگاتا گام تیرے نام
سکوتِ شب کی صورت گونجتی ہوں تیری محفل میں
ہواؤں پر سدا لکھتی رہی پیغام تیرے نام
اُمیدِ وصل کے گو مرحلے تاریک ہی گزرے
جلائی شمع ہم نے ہجر میں ہر شام تیرے نام