سلگتی نظروں کا خواب ہو تم
محبتوں کا شباب ہو تم
سمجھ نہ پائی جسے کبھی میں
کتاب دل کا وہ باب ہو تم
کہو تو جز دان میں چھپا لوں
کھلی ہوئی اک کتاب ہو تم
بچھے تھے راہوں میں پھول کتنے
جو بھا گیا وہ گلاب ہو تم
برا کہے تم کو لاکھ دنیا
مرے تو عالی جناب ہو تم
نہیں ہے بس میں تمہیں بھلانا
عجب طرح کا عذاب ہو تم
لگا کہ منزل تمہی ہو لیکن
نظر کا میری سراب ہو تم
وفا سے عاری سہی مزاجاً
وفا کا میری جواب ہو تم
کئی سوالوں میں تم گھرے ہو
مگر بہت لا جواب ہو تم
الٹ کے رکھ دی ہے میری دنیا
حیات کا انقلاب ہو تم
میں راگ رنگ اور رقص جیسی
غزل ترنم رباب ہو تم
یہ نشہ ٹوٹا نہ زندگی بھر
بہت پرانی شراب ہو تم
اے جان بانوؔ یہ جان لو اب
بذات خود انتخاب ہو تم