قسمت میں ساحلوں کے وہ گہرائیاں کہاں
جو بحر کو نصیب وہ پہنائیاں کہاں
ہجومِ آدمی کا نام شہر پڑ گیا
لیکن وہ شہر ِدل کی بزم آرائیاں کہاں
ہر ایک کو ہے فخر فنِ گفتگو پہ آج
لیکن وہ سادہ لہجوں کی سچائیاں کہاں
لوگوں کے بیچ میں بھی ہر ایک شخص ہے تنہا
وہ پُر سکون لمحوں کی تنہائیاں کہاں
عمارتیں تو ساری فلک بوس ہو گئیں
تعمیرِ آدمی کی وہ اونچائیاں کہاں